۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
پوسٹر

حوزہ/ زیارت عاشورہ میں ہم یہ فقرہ پڑھتے ہیں: “اللہم خص انت اوّل ظالم باللعن منی وابداء بہ اوّلًا ثم العن الثانی والثالث و الرابع۔ اللہم العن یزید خامسا….” یعنی “پروردگار اپنی لعنت کو مخصوص کر دے اس پہلے سے اور اسی سے لعنت کی ابتداء کر، پھر دوسرے پر ،اور تیسرے پر، اور چوتھے پر لعنت کر۔ پروردگار !! لعنت کر یزید پر جو پانچواں ہے…”

حوزہ نیوز ایجنسی | زیارت عاشورہ میں ہم یہ فقرہ پڑھتے ہیں: “اللہم خص انت اوّل ظالم باللعن منی وابداء بہ اوّلًا ثم العن الثانی والثالث و الرابع۔ اللہم العن یزید خامسا….” یعنی “پروردگار اپنی لعنت کو مخصوص کر دے اس پہلے سے اور اسی سے لعنت کی ابتداء کر، پھر دوسرے پر ،اور تیسرے پر، اور چوتھے پر لعنت کر۔ پروردگار !! لعنت کر یزید پر جو پانچواں ہے…”

زیارت عاشورہ کو ایک انفرادیت یہ بھی حاصل ہے کہ اس میں دشمنانِ اہلبیتؑ پر لعنت کی گئ ہے۔ بعض ناصبیوں پر نام لے کر لعنت کی گئی ہے تو بعض کا نام لیے بغیر لعنت کی گئی ہے۔ مندرجہ بالا جملہ اسی کی ایک مثال ہے جس میں چار افراد کے نام مخفی رکھے گئے ہیں جبکہ یزید کا کھلے طور پر نام لیا گیا ہے۔

ان جملوں میں چونکہ چار ناموں کی وضاحت نہیں ہے اس لیے سوال ہوتا ہے کہ یہ چار افراد کون ہیں؟ کیا یہ وہی افراد ہیں ، جن کے بارے میں امام جعفر صادقؑ کا فرمان ملتا ہے کہ آپؑ چار مرد اور چار عورتوں پر ہر نماز کے بعد لعنت کرتے تھے؟ یا یہ کوئ اور اشخاص ہیں؟

کتاب ‘شفاء الصدور’ جو زیارت عاشورہ کی شرح میں علامہ ابوالفضل طہرانی نے تالیف کی ہے، میں ان جملوں پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ایک واقعہ کو شہید ثالث قاضی نور الله شوستری کی کتاب ‘مجالس المومنین’ سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ کسی عبّاسی خلیفہ سے سنی درباریوں نے شکایت کی کہ شیعہ لوگ ہمارے خلفاء ثلاثہ اور معاویہ پر لعنت کرتے ہیں اور انھوں نے زیارت عاشورہ کے اسی جملے کو بطورِ نمونہ پیش کیا۔ اس وقت بزرگ شیعہ عالم شیخ طوسیؓ نے مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے ان ناموں کی صراحت میں جواب دیتے ہوے بتایا کہ اس جملے میں وہ پہلا شخص جس سے لعنت کی ابتداء کی جا رہی ہے وہ ‘قابیل’ ہے جس نے اپنے بھائی ‘ہابیل’ کو قتل کیا تھا اور زمین پر قتل کی بنیاد رکھی۔ ‘دوسرے لعنتی’ سے مراد جناب صالح کی اونٹنی کو قتل کرنے والا ‘عاقر’ ہے۔ ‘تیسرا ملعون’ جناب یحیٰی کا قاتل ہے اور ‘چوتھا ملعون’ شخص عبد الرحمان ابن ملجم ہے جس نے مولائے کائنات کو مسجد کوفہ میں شہید کیا۔ اس جواب سے بادشاہ مطمئن ہوگیا اور شیعوں کی بھی جان بچ گئ۔ (مجالس المومنین ص ٢٩١، شفاء الصدور ص ۵٩٨)

ظاہر سی بات ہے کہ اس واقعہ میں شیعہ عالم شیخ الطائفہ شیخ ابو جعفر طوسیؓ نے بڑی حکمت اور اپنی بصیرت افروز استعداد سے خود کو اور اپنی قوم کو دشمنوں کےہاتھوں قتل و غارتگری سے بچالیا۔ یہ اس بزرگ عالم کی حکمت عملی اور فراصت تھی جس نے نہ جانے کتنے شیعوں کو برباد ہونے سے بچالیا۔ مگر، افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں جو لوگ اتحاد بین المسلمین کا شور مچاتے ہیں اور خلفاء ثلاثہ اور معاویہ وغیرہ پر لعنت کرنے کے مخالف ہیں وہ اس واقعہ سے صرف یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ چار اشخاص کون ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسی کتاب ‘شفاء الصدور’ کے موءلف علامہ میرزا طہرانی نے انھیں صفحات پر باقاعدہ مفصل گفتگو اس بات پر کی ہے کہ حقیقی ملعون وہ افراد ہیں جنہوں نے رسولؐ و آل رسولؑ کو اذیت دی ہے۔ قرآن کی آیت بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو اشخاص اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان سب پر دنیا و آخرت دونوں میں لعنت کرتا ہے۔

(احزاب:۵۴)۔ اس قرآنی اصول سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اب جس نے بھی رسول اللہ (ص) کی مخالفت کی اور ان کو اذیت دی وہ بھی اس لعنت کے مستحق ہیں۔ اپنی بات کو مستحکم کرنے کے لیے موءلف نے ایک تاریخی واقعہ کا سہارا لیا ہے۔ طرفین کی تاریخ کی کتابوں میں یہ بات مشہور ہے کہ امت کے سربرآوردہ افراد رسول اللہ (ص) کے بار بار اصرارکرنے کے باوجود بھی ‘اسامہ بن زید’ کے لشکر میں شامل نہ ہوئے اور مدینہ ہی میں مقیم رہے یہاں تک کہ آنحضرتؐ کو ان سب پر لعنت کرنی پڑی۔ (الملل و النحل ج ١ ص ٢٣)

اسی بحث میں صاحب ‘شفاء الصدور’ نے اس جملے کی تشریح میں یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضور اکرم (ص) کا ارشاد ہے “من آذیٰ عٙلِیًّا بُعِثٙ یٙھُودِیًّا اٙوْ نٙصْرٙانِیًا۔ (مسند احمد ابن حنبل ٣/۴٨٣، نھج الحق ٢٢٢) یعنی “جو علیؑ کو اذیت دے گا وہ قیامت کے دن یا تو یہودی محشور ہوگا یا نصرانی”۔ نھج البلاغہ میں امیرالمومنین کا خطبہ ‘شقشقیہ’ موجود ہے جو بتاتا ہے کہ امیر کائناتؑ کو کس قدر شیخین نے اذیت دی ہے. اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے موءلف علامہ ابوالفضل طہرانی نے ایک طویل روایت اہل تسنّن کی معتبر ترین کتاب صحیح مسلم سے پیش کی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت علیؑ پہلے دو خلفاء کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ کس قدر امیرالمومنینؑ ان دونوں سے ناراض تھے۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد ح ١٧۵٧)۔

اتنا ہی نہیں اسی فقرے کے ذیل میں دشمنانِ اہلبیتؑ پر لعنت کی ترغیب کے لیے موءلف نے ائمہؑ کی چند احادیث بھی نقل کی ہیں ، جن میں لعنت کرنے کا کثیر ثواب بیان ہوا ہے۔ امام سجّاد علیہ السلام کی وہ مشہور روایت بھی درج کی گئی ہے ، جس میں ‘جبت و طاغوت’ پر لعنت کا ثواب بیان کیا گیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی شیعہ سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ وہ چار ملعون افراد جن کی کڑی یزید ملعون سے ملتی ہے اور جن پر زیارت عاشورہ میں لعنت کی گئی ہے کون ہیں۔ یہ بات بھی دہرا دینا ضروری ہے کہ زیارت عاشورہ کے اس فقرے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ‘اس جملے میں غاصبین خلافت پر لعنت نہیں کی گئ ہے’ یا ‘ان غاصبوں کا نام لے کر لعنت کرنا ممنوع ہے ، ایک دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .